جوانی، زندگی کا بہترین وقت

از محمد وسیم

زندگی مختلف مراحل پر مشتمل ہوتی ہے، اور ہر مرحلہ اپنی اہمیت اور خوبیوں کے ساتھ آتا ہے۔ ان تمام مراحل میں جوانی کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان کی توانائی عروج پر ہوتی ہے، خیالات میں وسعت ہوتی ہے، اور ہر خواب کو حقیقت میں بدلنے کی خواہش جاگتی ہے۔ جوانی، زندگی کا بہترین وقت اسی لیے کہلاتی ہے کہ اس میں مواقع بھی زیادہ ہوتے ہیں اور ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت بھی زیادہ ہوتی ہے۔قوتو ں، صلاحیتوں، حوصلوں، اُمنگوں ، جفا کشی ،بلند پروازی اور عزائم کا دوسرا نام نوجوانی ہے ۔ کسی بھی قوم وملک کی کامیابی وناکامی ،فتح و شکست ، ترقی وتنزل اور عروج وزوال میں نوجوانوں کا اہم کردار ہوتا ہے ۔ ہر انقلاب چاہے وہ سیاسی ہو یا اقتصادی ،معاشرتی سطح کا ہویا ملکی سطح کا، سائنسی میدان ہو یا اطلاعاتی ونشریاتی میدان، غرض سبھی میدانوں میں نوجوانوں کا کردار نہایت ہی اہم اور کلیدی ہوتا ہے ۔روس کا انقلاب ہو یا فرانس کا،عرب بہار ہو یا مارٹن لوتھرکنگ کا برپا کردہ انقلاب، ہر انقلاب کو برپا کرنے کے پیچھے نوجوانوں کا اہم حصہ کار فر ما رہا ہے۔ ماضی میں بھی جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے ہر چھوٹی بڑی تبدیلی نوجوانوں ہی کے ذریعے آئی ہے۔ زمانہ حال میں بھی ہر چھوٹی بڑی تنظیم یا تحریک چاہے سیاسی ہو یا مذہبی، سماجی ہو یا عسکری، ان میں نوجوان ہی پیش پیش ہیں۔ مستقبل میں بھی ہر قوم وملک اور تنظیم انھی پر اپنی نگاہیں اور توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔

جوانی کی خصوصیات

جوانی کی سب سے بڑی خصوصیت توانائی اور جوش و خروش ہے۔ اس مرحلے میں انسان کے اندر زندگی جینے کا جذبہ اور دنیا کو سمجھنے کی جستجو عروج پر ہوتی ہے۔ ہر نیا تجربہ ایک نیا سبق دیتا ہے، اور انسان کی شخصیت میں نکھار آتا ہے۔ب قرآن مجید کی طرف رجوع کریں گے کہ وہ نوجوانوں کی اہمیت اور کردار کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ قرآن مجید اصحاب کہف کے حوالے سے نوجوانوں کا کردر اس طرح سے بیان کرتا ہے: ’’ہم ان کا اصل قصہ تمھیں سناتے ہیں۔ وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی‘‘۔ یہ وہ نوجوان تھے جنھوں نے وقت کے ظالم حکمران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر رب العالمین پر ایمان لا کر حق پرستی کاا علان کیا

۔اللہ تعالیٰ ان کے عزائم وحوصلے اور غیر متزلزل ایمان اور ان کے عالم گیر اعلان کے بارے میں اس طرح فرماتا ہے: وَّ رَبَطْنَا عَلٰی قُلُوْبِھِمْ اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَاْ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلٰھًا لَّقَدْ قُلْنَآ اِذًا شَطَطًا o(الکھف ۱۸:۱۴) ’’ہم نے ان کے دل اس وقت مضبوط کر دیے جب وہ اٹھے اور انھوں نے یہ اعلان کر دیا کہ ہمارا رب بس وہی ہے جو آسمانوں ور زمین کا رب ہے، ہم اسے چھوڑ کر کسی دوسرے معبود کو نہ پکاریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں تو بالکل بے جا بات کریں گے‘‘۔

یہی وہ وقت ہوتا ہے جب انسان اپنی تعلیم مکمل کرتا ہے، کیریئر کا آغاز کرتا ہے، اور خود کو ایک مستحکم مقام پر پہنچانے کی جدوجہد میں مصروف ہوتا ہے۔ اس عمر میں انسان میں خود اعتمادی ہوتی ہے، اور وہ ہر چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔

جوانی میں سیکھنے اور آگے بڑھنے کے مواقع

جوانی وہ وقت ہے جب انسان کے پاس سیکھنے اور ترقی کرنے کے بے شمار مواقع ہوتے ہیں۔ تعلیم، ہنر، اور تجربہ حاصل کرنے کے لیے یہ عمر سب سے موزوں سمجھی جاتی ہے۔ نوجوان اگر اس وقت کو ضائع نہ کریں اور خود کو بہتر بنانے پر توجہ دیں تو مستقبل میں کامیابی ان کا مقدر بن سکتی ہے۔

دنیا کی مشہور شخصیات نے اپنی جوانی کے دنوں میں سخت محنت اور لگن سے کام کیا، اور یہی ان کی کامیابی کا راز بنا۔ اس لیے ضروری ہے کہ نوجوان اپنے وقت کو قیمتی سمجھیں اور اسے بامقصد سرگرمیوں میں صرف کریں۔مال کمانے کا تعلق بھی اسی عمرسے شروع ہوتا ہے۔ حصول علم کاتعلق بھی اسی عمر سے ہے۔ نوجوانی کی عمر صلاحیتوں کو پیدا کرنے اور اس میں نکھار پیدا کرنے کی ہوتی ہے ۔اسی عمر میں نوجوان علوم کے مختلف منازل طے کرتا ہے۔ یہی وہ عمر ہے جس میں نوجوان علمی تشنگی کو اچھی طرح سے بجھا سکتا ہے۔ اسی دور کے متعلق علا مہ اقبال نے ع ’شباب جس کا ہو بے داغ ضرب ہے کاری‘ فرمایا ہے ۔عمر کے اسی مرحلے میں نوجوان صحابہؓ نے بڑے بڑے کارنامے انجام دیے ۔یہی وہ عمر ہے جس میں حضرت اسامہ بن زیدؓ نے قیادت کی ذمہ داری سنبھالی۔ یہی وہ عمر ہے جس میں حضرت خالد بن ولیدؓ نے بار گاہِ نبوت سے سیف اللہ کا لقب حاصل کیا ۔دورِ شباب ہی میں حضرت علیؓ ،حضرت مصعب بن عمیرؓ ، حضرت عمار بن یاسرؓ ، اور چارعباد اللہ جن میں ابن عمرؓ ،ابن عباسؓ، ابن زبیرؓاور ابن عمرو ابن العاصؓ نے اللہ کے رسولؐ سے شانہ بشانہ عہد وپیمان باندھا۔ اسی عمر میں ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ،اور امام غزالی جیسے مجدد علوم کی گہرائیوں میں اترے ،اسی دورشباب میں صلاح الدین ایوبی، طارق بن زیاد اور محمدبن قاسم نے اسلامی تاریخ کو اپنے کارناموں سے منور کیا۔ اسی عمر میں حسن البنا شہید نے مصر کی سرزمین کو جہاں فرعون کے انمٹ نقوش ابھی بھی بہر تلاطم کی طرح باقی ہیں دعوت الی اللہ کے لیے مسکن بنایا۔ مولاناابوالکلام آزاد نے صحافت کا میدان نوجوانی ہی میں اختیار کیا اور سید مودودی نے ۲۳سال کی عمر میں ہی الجہاد فی الاسلام جیسی معرکہ آراکتاب لکھ کر تمام غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جن کا اس وقت نہ صرف غیر مسلم بلکہ مسلمان بھی شکار تھے 

جوانی میں فیصلوں کی اہمیت

یہ وہ دور ہوتا ہے جب انسان اپنی زندگی کے بڑے بڑے فیصلے کرتا ہے، جو اس کے مستقبل کو تشکیل دیتے ہیں۔ ان فیصلوں میں تعلیمی میدان کا انتخاب، پیشہ ورانہ زندگی کا تعین، اور زندگی کے مقاصد کا تعین شامل ہوتا ہے۔ڈاکٹر ابراہیم ناجی نے اپنے کتاب Have you Discovered its Real Beautyمیں ایک واقعے کاتذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میں نے ناروے کے ایک ہوٹل میں کرس نام کے ایک شخص سے پوچھا کہ آپ کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ انھوں نے حیران ہوکر جواب دیا کہ مجھ سے آج تک کسی نے بھی اس طرح کا سوال نہیں کیا اور اس کے بعد اپنی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ میری زند گی کا کوئی مقصد نہیں ہے اور زندگی کا کوئی مقصد بھی ہوتا ہے کیا ؟۔
عصرِجدید میں جب نوجوانوں سے پوچھا جاتا ہے کہ زندگی کا مقصد کیا ہے تو ان کا بھی جواب کرس کی طرح ہی ہوتاہے۔ مقصدِ زندگی کے تعلق سے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں Eat, Drink and be Happy’یعنی خوب عیش کر لے کیو نکہ عالم دوبار ہ نہیں ہے‘جیسے فرسودہ اور پُرفریب نعروں پر نہ صرف یقین کرتے ہیں بلکہ ان پر عمل پیرا بھی ہوتے ہیں

اگر کوئی نوجوان اس دور میں غلط فیصلے کرے تو اس کے اثرات پوری زندگی پر مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ نوجوان اپنے فیصلے سوچ سمجھ کر کریں اور اپنے بڑوں اور ماہرین سے مشورہ لیں تاکہ وہ غلطیوں سے بچ سکیں۔

جوانی میں مثبت عادات کی تشکیل

یہی وہ وقت ہے جب انسان اپنی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے۔ اگر اس دور میں مثبت عادات کو اپنایا جائے، تو زندگی کے ہر شعبے میں کامیابی ممکن ہے۔ خود نظم و ضبط، محنت، ایمانداری، اور مستقل مزاجی جیسی عادات اپنانا بہت ضروری ہے۔

مثبت عادات نہ صرف شخصیت کو سنوارتی ہیں بلکہ انسان کو دوسروں کے لیے بھی ایک مثال بنا دیتی ہیں۔ جو نوجوان اپنی زندگی میں اچھے اصولوں کو اپناتے ہیں، وہ ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں اور معاشرے میں عزت پاتے ہیں۔

جوانی اور صحت

جوانی میں صحت کی قدر کرنا بھی بے حد ضروری ہے۔ اکثر نوجوان اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتے اور غیر متوازن طرز زندگی اپناتے ہیں، جو مستقبل میں مشکلات کا باعث بنتی ہے۔ صحت مند غذا، ورزش، اور ذہنی سکون کے لیے مثبت سرگرمیوں کو اپنانا جوانی میں بہت ضروری ہے۔

اگر نوجوان اپنی صحت پر دھیان دیں، تو وہ لمبے عرصے تک اپنی توانائی اور چستی کو برقرار رکھ سکتے ہیں اور زندگی کے ہر مرحلے میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔

جوانی اور سماجی ذمہ داریاں

یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان کو اپنے حقوق و فرائض کا شعور آتا ہے۔ ایک اچھا نوجوان وہی ہوتا ہے جو نہ صرف اپنی بہتری کے لیے کام کرے بلکہ معاشرے کی بہتری میں بھی اپنا کردار ادا کرے۔

نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو صرف اپنے فائدے تک محدود نہ رکھیں، بلکہ دوسروں کی بھلائی کے لیے بھی کام کریں۔ معاشرتی فلاح و بہبود کے کاموں میں حصہ لینا، دوسروں کی مدد کرنا، اور اپنے اردگرد کے ماحول کو بہتر بنانے کی کوشش کرنا، ایک ذمہ دار نوجوان کی پہچان ہوتی ہے۔

اسلامی تا ریخ سے ناواقفیت اور نوجوان

اپنی تہذیب و تاریخ اور علمی ورثہ سے مانوس و باخبر رہنا اشد ضروری ہے ۔ جو قوم اپنی تاریخ اور علمی ورثے سے غفلت برتتی ہے۔ تو وہ صفحۂ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹ جاتی ہے یا مٹادی جاتی ہے۔ اپنی تاریخ سے ناآشنا ہوکر کوئی بھی قوم یا ملت بہتر مستقبل اور ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتی ۔ اس وقت اُمت مسلمہ کی صورت حال یہ ہے کہ اس کا یہ اہم سر مایہ اپنی تاریخ سے بالکل نابلد ہے ۔ ملت کے نوجوانوں کو اسلامی فتوحات کا کچھ علم نہیں۔ خلفاے راشدین کے کارناموں سے کوئی واقفیت نہیں ۔ وہ رسولؐ کے جانباز ساتھیوں کی زندگیوں سے کو سوں دُور ہیں ۔ ان کو پتا ہی نہیں کہ امام غزالی، ابن خلدون ،ابن تیمیہ جیسی نامور شخصیات کون تھیں؟ انھیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ سید قطبؒ ، حسن البناؒ اور سید مودودیؒ نے کیا کیا خدمات انجام دیں ۔ملت کے اس طبقے کو اسلام کے سرمایۂ علم اور تاریخ سے جوڑنا وقت کی اہم ترین پکار ہے

جوانی میں وقت کی اہمیت

وقت ایک ایسا خزانہ ہے جو اگر ضائع ہو جائے تو دوبارہ نہیں ملتا۔ جوانی میں وقت کا صحیح استعمال بہت ضروری ہے۔ جو نوجوان اپنے وقت کو قیمتی سمجھتے ہیں اور اسے صحیح طریقے سے استعمال کرتے ہیں، وہ ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں۔

وقت کی منصوبہ بندی اور صحیح استعمال سے نہ صرف تعلیمی اور پیشہ ورانہ کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے بلکہ ذاتی زندگی میں بھی سکون اور خوشحالی حاصل کی جا سکتی ہے۔

نتیجہ

جوانی، زندگی کا سب سے قیمتی اور سنہری دور ہوتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان کے پاس خواب دیکھنے اور انہیں حقیقت میں بدلنے کا بہترین موقع ہوتا ہے۔ اگر اس وقت کو ضائع کر دیا جائے تو بعد میں صرف پچھتاوا رہ جاتا ہے۔مسلم نوجوانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام عالم گیر نظام زندگی ہے، یہ خالق کائنات نے انسان کے لیے بنایا ہے ۔اللہ تعالیٰ اپنا تعارف قرآن مجید میں رب العالمین سے اور اپنے رسولؐ کا تعارف رحمۃللعالمین سے کراتا ہے،اور قرآن پاک کو ھُدًی لِّلنَّاسِ کہتا ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی تہذیب ایسی تہذیب ہے جس میں متبادل ہونے کی صفات بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ بقول اقبال ؂

اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے

مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

اس لیے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی جوانی کو بامقصد بنائیں، مثبت عادات اپنائیں، صحت کا خیال رکھیں، اور اپنے وقت کو قیمتی بنائیں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو نہ صرف وہ خود کامیاب ہوں گے بلکہ ایک بہتر معاشرہ اور ایک روشن مستقبل بھی تخلیق کر سکیں گے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Skip to content